وہ بستر سے اٹھ کر، جو انگڑائی دیکھے
تو ہر دل میں فوراً، سماں خوب دیکھے
بدن کی وہ لچکن، قیامت کا منظر
زمیں پر فلک کا، گماں خوب دیکھے
گلوں میں جو خوشبو، نہیں تھی میسر
وہ اس نازنیں کے، نشاں خوب دیکھے
یہ نیندوں میں ڈوبا، ہوا اس کا چہرہ
کبھی کوئی اس کا، بیاں خوب دیکھے
سحر مسکرائی، کرن جھلملائی
یہ کیسا حسیں اب، جہاں خوب دیکھے
کوئی بات دل کی، لبوں پر نہ لانا
وہی راز اپنا، عیاں خوب دیکھے
وہ محفل میں آیا، تو دل شاد کر کے
ہر اک سمت جیسے، کماں خوب دیکھے
"ندیم" اب یہ منظر، عجب لگ رہا ہے
کہ ہر دل کو اپنا، نشاں خوب دیکھے

0
4