| نہ دل اپنا رہا اپنا، نہ اب اپنی جوانی ہے |
| فقط تنہائی کا عالم، فقط دل کی کہانی ہے |
| عجب ہے گردشِ دوراں، عجب یہ زندگانی ہے |
| کہاں وہ یار کی صحبت، کہاں یہ بے نشانی ہے |
| متاعِ دل لٹا بیٹھے، مگر اس کو خبر کب ہے |
| مری آنکھوں میں جو چھلکا، وہی اشکِ روانی ہے |
| کوئی پوچھے تو دنیا سے، محبت کیا حقیقت ہے |
| فریبِ آرزو ہے یہ، فریبِ شادمانی ہے |
| ترے وعدوں کا کیا ہوگا، قسم تیری، قسم میری |
| یہی بس ایک حسرت ہے، یہی اپنی نشانی ہے |
| غمِ فرقت نے آ گھیرا، عجب یہ دل پہ گزری ہے |
| نہ اب وہ ہجر کی راتیں، نہ اب وہ مہربانی ہے |
| نہ ہوگا کوئی ہم جیسا، یہ دعویٰ ہے "ندیم" اپنا |
| کہ دل میں جو بسا رکھی، وہ الفت جاودانی ہے |
معلومات