| کبھی تو آؤ کہ دل کا قرار ہو جائے |
| تمہاری دید ہی بس اختیار ہو جائے |
| یہ دل ہے یا کوئی ویران سی حویلی ہے |
| جہاں پہ آ کے ہر اک غم سوار ہو جائے |
| خرد کو چھوڑ کے دیوانگی میں جینا سیکھ |
| یہی وہ راہ ہے جس سے کہ پار ہو جائے |
| وفا کی بات نہ کر اے جاں! اس زمانے میں |
| عجیب رسم ہے، کب اعتبار ہو جائے |
| چمن میں رہ کے بھی گل کو خبر نہیں اپنی |
| عجب مقام ہے، کب آشکار ہو جائے |
| اسی کو دیکھ کے جیتا ہوں، مر بھی جاتا ہوں |
| علاجِ ہجر اگر یوں ہی یار ہو جائے |
| جو تم ملو تو کہیں زندگی سنور جائے |
| وگرنہ جینا مرا یوں ہی خوار ہو جائے |
| یہ شاعری، یہ غزل، یہ سبھی تمہارے ہیں |
| "ندیم"ؔ کاش ترا بھی شمار ہو جائے |
معلومات