یہ دل کا ساز ہے، اس میں کوئی کمی تو نہیں
سخن وری کا ہنر ہے، کوئی نمی تو نہیں
یہ بحر ہم نے سلیقے سے اب سجائی ہے
کہ اس میں وسعتِ دریا، کوئی نمی تو نہیں
یہ قافیہ ہے کہ اس سے کلام روشن ہے
سخن میں اس کے سوا کوئی روشنی تو نہیں
یہ ایک طرزِ بیاں ہے، اسے پرکھنا ہو گا
کہ اس میں فکرِ جواں ہے، کوئی کمی تو نہیں
ہر ایک بات، ہر اک شعر، با وقار لگے
ہر ایک شعر میں معنی، کوئی کمی تو نہیں
نہ ڈر حیات کے غم سے، یہ زندگی اے دوست
فقط عمل کا ثمر ہے، کوئی کمی تو نہیں
اسی سے ہوش میں آتی ہے زندگی ساری
یہ ایک فن ہے خدائی، کوئی کمی تو نہیں
جو بات دل میں رہے، وہ رہے گی خام ندیمؔ
یہ شعر بن کے جو نکلی، یہی کمی تو نہیں

0
5