ازل سے رشتۂ دل ہے اُسی جانِ جہاں کے ساتھ
کہ ہم نے عہدِ وفا باندھا ہے نام و نشاں کے ساتھ
جنوں میں ہوش کا عالم، خرد میں بے خودی چھائی
عجب کیفیت طاری ہوئی ہے امتحاں کے ساتھ
ترے بغیر بہاریں بھی بے رنگ و بے کیف ہیں
خزاں کا راج ہے اب دل کے اس گلستاں کے ساتھ
کہاں وہ لطفِ ملاقات، کہاں اب وہ عنایات
ستم بھی ہو تو کوئی خوب ہو، کسی دلستاں کے ساتھ
نہ مِل سکا سرِ محفل بھی چین، جب سے بچھڑ کر
سکوں حاصل ہوا ہے اب گوشۂ تنہائی کے ساتھ
یہ میری سادگی یا اس کی دلداری کی انتہا
مِرا نصیب جُڑا ہے کسی مہر و شاں کے ساتھ
کبھی تو آؤ کہ آنکھیں تمہاری دید کو ترسیں
نہ یوں بے اعتنائی برتو اس ناتواں کے ساتھ
ندیمؔ کیا بیاں کرے اپنا حالِ دل اب وہ
کہ اپنا مسلک ہی جدا ہے اہلِ جہاں کے ساتھ

0
3