دیارِ دل میں عجب اضطراب رہتا ہے
کوئی تو ہے جو پسِ انتخاب رہتا ہے
خزاں رُتوں کا بھی اپنا ہی ایک قصہ ہے
وگرنہ پھولوں کا کب تک شباب رہتا ہے
عجیب خواب تھا وہ جو سراب کر ڈالا
مری نظر میں ابھی تک وہ خواب رہتا ہے
وہ اپنی زلف سنوارے تو دن نکل آئے
وہی ہے جس سے ہر اک ماہتاب رہتا ہے
وفا کا نام نہ لینا کہ اس زمانے میں
یہ لفظ جیسے کوئی نایاب رہتا ہے
یہ زندگی کا سفر ہے، یہاں سکوں مت ڈھونڈ
کہ اس سفر میں ہر اک کامیاب رہتا ہے
"ندیم" عشق میں خود کو فنا ہی کر ڈالو
اسی عمل سے یہ دل کامیاب رہتا ہے

0
4