| مَرے خیال کو تم نے نئی ڈگر بخشی |
| کبھی نہ لوٹ سکے ایسی رہ گزر بخشی |
| وہ جانتا ہے مری شاعری کا کیا مقصد |
| کہ ہر غزل کو فقط تیری ہی نظر بخشی |
| جو غم تھا دل میں وہ ہونٹوں پہ مسکراہٹ ہے |
| یہ تیرے پیار نے کیسی مجھے ہنر بخشی |
| وہ جب بھی حالِ پریشان پوچھ لیتا ہے |
| یہی سوال مجھے طاقتِ جگر بخشی |
معلومات