مَرے خیال کو تم نے نئی ڈگر بخشی
کبھی نہ لوٹ سکے ایسی رہ گزر بخشی
وہ جانتا ہے مری شاعری کا کیا مقصد
کہ ہر غزل کو فقط تیری ہی نظر بخشی
جو غم تھا دل میں وہ ہونٹوں پہ مسکراہٹ ہے
یہ تیرے پیار نے کیسی مجھے ہنر بخشی
وہ جب بھی حالِ پریشان پوچھ لیتا ہے
یہی سوال مجھے طاقتِ جگر بخشی

0
4