| پھر وہی دل، پھر وہی غم، پھر وہی افسوس ہے |
| عشق کا شاید ہمارے سر پہ اب بھی بوجھ ہے |
| آرزوئیں ہیں مری بکھری ہوئی ہر سمت میں |
| زندگی اک خواب سی، اور خواب بھی بے ہوش ہے |
| چاند تاروں سے کہو، اب روشنی کم کر ذرا |
| ہجر کی شب ہے مری، یہ دل بہت پُر جوش ہے |
| کس طرح اس کو بتاؤں حال دل اے دوستو |
| وہ تو سنتا ہی نہیں، لگتا ہے جیسے گُوش ہے |
| اپنی یادوں سے کہو، کچھ دیر کو تھم جائیں وہ |
| روز و شب ان کا تسلسل، میری جاں کا توش ہے |
| ہم نے خود ہی دل جلایا، خود ہی تنہا رہ گئے |
| اس میں اس کا کیا خطا، وہ تو بہت خاموش ہے |
| وقت کا دریا بہا، اور ہم نے کچھ پایا نہیں |
| عمر ساری کٹ گئی، بس زندگی کا ہوش ہے |
| پھر ندیمؔ اس حال پر اب کون سا افسوس ہے |
| زندگی کا کھیل سارا، بس یہی اک ہوش ہے |
معلومات