دل میں کسی کو اور بسایا نہ جائے گا
ذکرِ حبیبِ پاک بھلایا نہ جائے گا
ہم سے تو اپنا حال سنایا نہ جائے گا
وہ خود ہی جان لیں گے، جتایا نہ جائے گا
جنت بھی ہو نصیب مگر اس کے بغیر
کوثر کا جام یوں ہی اٹھایا نہ جائے گا
روشن رہے گا داغِ فراقِ شہِؐ امم
یہ وہ چراغ ہے جو بجھایا نہ جائے گا
مانا کہ زندگی میں ہے رنج و الم بہت
صبر و رضا کا ہاتھ چھڑایا نہ جائے گا
بے شک حضور شافع محشر ہیں، منکرو
کیا ان کے سامنے تمہیں لایا نہ جائے گا
ہو جائے گر کرم تو مدینے بلائیں وہ
پھر لوٹ کر یہ شہر بسایا نہ جائے گا
محشر میں بخششیں ہیں فقط ان کے نام سے
"ندیم" اور کوئی بلایا نہ جائے گا

0
2