​وہ کون ہے جو مرے دل کو چھُو کے جاتا ہے
یہ خواب میں بھی اکیلا کہاں سلاتا ہے
​وہ کوئی بات مرے سامنے نہ کرتا تھا
مگر نگاہ سے ہر راز وہ بتاتا ہے
​عجب جہان ہے ہر شخص خامشی میں مگر
دھواں تو سب کے ہی زخموں کا اٹھ کے آتا ہے
​یہ شہرِ دل ہے یہاں کا کوئی اصول نہیں
یہاں غریب بھی شاہوں کا سر جھکاتا ہے
​بڑے خلوص سے اس نے کیا تھا وعدہ مگر
وہ اپنے عہد کو اب روز ہی بھلاتا ہے
​ہزار بار کہا ہے کہ میں برا ہوں بہت
وہ پھر بھی میرے لیے ہاتھ کو بڑھاتا ہے
​اُسی کے نام پہ جیون کو کر دیا تھا تمام
اُسی کو آج مرا نام کیوں رُلاتا ہے؟
​یہ عشق ایسا مرض ہے کہ ندیمؔ اس میں
جو ہار جاتا ہے دنیا میں جی کے آتا ہے

0
4