کرم کی نظر، اک ذرا چاہتا ہوں
بہانہ کوئی، باخدا چاہتا ہوں
نہیں دل میں وسعت ترے غم کے آگے
وہی آرزو، اِک خلا چاہتا ہوں
مجھے دے نہ تسکینِ ہجراں کا مرہم
میں زخموں سے اب آشنا چاہتا ہوں
جوانی کے لمحے گزرتے ہیں جیسے
اسی طرح کیف و صفا چاہتا ہوں
زمانہ ہوا ہجر کی شب میں ڈوبا
فراق آج بن کے ضیا چاہتا ہوں
نہ پایا سکوں زندگی کی رمق میں
عدم میں سکون و بقا چاہتا ہوں
کہاں تک سنوں اب یہ رسم و رواجیں
حقیقت کی سچی صدا چاہتا ہوں
"ندیم" آج بزمِ سخن میں اکیلا
فقط آپ کی اک رضا چاہتا ہوں

0
4