| یہاں ہر دل میں کیا کیا حسرتیں پنہاں نظر آئیں |
| کبھی آنکھوں سے چھلکیں، تو کبھی حیراں نظر آئیں |
| کبھی یہ زندگی خوشیوں بھرا اک خواب سی تھی |
| مگر اب خواب میں بھی کچھ پریشاں نظر آئیں |
| چمکتے چاند تارے سب فلک کے، میرے آنگن میں |
| ترے غم کی کہانی کے نگہباں نظر آئیں |
| نہ سمجھا کوئی میری خامشی کا اصل مفہوم |
| فقط کاغذ پہ بکھرے کچھ بیان نظر آئیں |
| بڑی مشکل سے زخمِ دل کا راز رکھا تھا دنیا سے |
| مگر جب چھیڑ دی باتوں نے، فوراً عیاں نظر آئیں |
| بہت ڈھونڈا تھا سچی بات کا معیار دنیا میں |
| فقط سچائی کی قیمت میں کچھ زنداں نظر آئیں |
| یہ بزمِ شاعری اور شعر گوئی کا نیا عالم |
| جہاں دیکھو وہیں اپنے سے انساں نظر آئیں |
| ندیمؔ اب ہوش کر کچھ، اور یہ شعر و سخن چھوڑ |
| بہت مشکل سے ملتے ہیں جو آساں نظر آئیں |
معلومات