کبھی جو یاد میں آیا وہ چاند سا لگتا
مگر وصال کا قصّہ فسانہ سا لگتا
خزاں کی دھوپ میں بیٹھا تھا میں خیالوں میں
وہ آ کے بولا کہ موسم بہانہ سا لگتا
کسی کے ہجر میں دن بھی سیاہ ہوتے ہیں
کسی کے ساتھ تو ہر غم خزانہ سا لگتا
میں اپنے حال سے واقف ہوں اے نظر والو
یہ دل تو زخم ہے، چہرہ ترانہ سا لگتا
جو دل سے چاہنے والے ہوں، ان پہ مہر کرو
کہ ان کی بات بھی اکثر نبی سا لگتا
ہم اہلِ درد کو دنیا سمجھ نہ پائے گی
یہ سادہ حرف بھی ان کو فسانہ سا لگتا

0
3