ہزار حیلہ کیا، پر وہ بے وفا نہ ہُوا
کہ دل کو اپنے کسی غم سے آشنا نہ ہُوا
بہت سے داغ تھے پہلو میں، دل جلا نہ سکا
یہ عشق بھی مرے حق میں کوئی دوا نہ ہُوا
جو بات لب پہ نہ آئی، وہ دل میں رہ گئی آج
کچھ ایسا ضبط کہ محفل میں غلغلا نہ ہُوا
ہماری خاک سے اٹھے تو کتنے طوفاں تھے
مگر یہ عالمِ ہستی کبھی فنا نہ ہُوا
وہ ایک شخص جو دل کو عزیز تھا کتنا
ہمارے حال پہ وہ بھی کبھی رضا نہ ہُوا
یہی ستم ہے کہ ہم نے جفا سہی اس کی
مگر زباں سے کبھی شکوہ و گلہ نہ ہُوا
گزر گئی شبِ فرقت یونہی ندیمؔ مری
کہ جیسے ہجر کا لمحہ کوئی جدا نہ ہُوا

0
3