یہ دنیا علم ہی سمجھے، کوئی جادو نہیں ہے
جو ہاتھ تھام لے بانہوں میں، وہ خدا نہیں ہے
عجیب خواب ہیں بکھرے ہوئے حقیقتوں میں
کوئی بھی شخص یہاں اپنا آشنا نہیں ہے
وفا کی بات نہ کر، عہدِ رفتگاں ہے وہ اب
کہ آج کل تو کوئی وعدہ ہی وفا نہیں ہے
جو دل میں شورشیں ہیں، وہ لبوں پے مت سجا دیں
سکوتِ شب میں بھی گونجی صدا، نہیں ہے
یہ روشنی جو ہے، یہ علم کا ہی فیض ہے اب
جہالتوں کا یہاں اب کوئی مدا نہیں ہے
رواج و رسم سبھی کچھ بدل گئے ہیں اب
کہانیوں میں بھی باقی وہ حیا نہیں ہے
تلاشِ رزق سے اپنا سفر جاری نہیں ہے
وطن میں رہ کہ بھی اپنا کوئی پتا نہیں ہے
یہ زندگی ندیم اب تو سزا سی لگتی
حیات نام ہے جس کا، کوئی اچھا نہیں ہے

0
3