یہ انتظار کی شب ہے، سحر نہیں آتی
کبھی کبھی تو ہمیں اپنی خبر نہیں آتی
عجیب درد کا رشتہ ہے اس زمانے میں
دعا بھی لب پہ ہو، لیکن اثر نہیں آتی
ہزار رنگ بدلتا ہے یہ فلک پھر بھی
تری نظر کے مقابل نظر نہیں آتی
بہت تلاش کیا ہے سکونِ دل لیکن
جہاں میں کوئی بھی شے معتبر نہیں آتی
جو دل میں ہو وہ زباں پر کبھی نہیں لاتا
یہ اک حقیقت ہے جو معتبر نہیں آتی
تمام شہرِ محبت اداس رہتا ہے
کہ اب تو کوچے میں اس کے خبر نہیں آتی
یہ زندگی ہے، یہاں ضبط اختیار کرو
کہ بے قراری سے کچھ بھی ثمر نہیں آتی
کہاں وہ بزم، کہاں وہ سخن سرائی "ندیم"
اب ایسی کوئی بھی محفل نظر نہیں آتی

0
4