| کبھی تو یہ دلِ ویراں سنورنے والا ہے |
| غمِ حیات کا زنداں بکھرنے والا ہے |
| بہت ہوا ہے کرم گردشِ زمانہ کا |
| ستم بھی اب کوئی تازہ گزرنے والا ہے |
| یہ زندگی جو تری جستجو میں گزری ہے |
| اسی سے حاصلِ عرفاں ابھرنے والا ہے |
| خودی میں ڈوب جا، منزل قریب آ پہنچی |
| یہ بحر پار، سفینہ اترنے والا ہے |
| چمن میں رنگ نیا آئے گا بہاروں کا |
| خزاں کا دور، یہ منظر سنورنے والا ہے |
| ہزار بار گرا ہوں، ہزار بار اٹھا |
| یہی چراغ تو شب بھر ابھرنے والا ہے |
| ندیمؔ، دیکھ کہ امید کا دیا روشن |
| ترا وجود، یہ گلشن نکھرنے والا ہے |
معلومات