وہ دورِ جہاں تاب اب آ چکا ہے؟
کہ جس میں ہر اِک در پہ ماتم بپا ہے
نہ وہ جوشِ ملت، نہ وہ جذبِ کامل
فقط رسمِ دیں ہے، فقط اِک رِیا ہے
یہ خاموشیاں ہیں، یہ مردہ ضمیری
یہاں روحِ ملت عجب بے نوا ہے
نہ خود کو سنبھالا، نہ اوروں کو پوچھا
فقط اپنے بارے میں ہر اک گماں ہے
خودی اپنی کھو دی، گنوا دی بصیرت
نہ کوئی طلب ہے، نہ کوئی صدا ہے
ہواؤں سے ڈر کر شجر کانپتے ہیں
کہ اب برگ و گل پر خزاں چھا گئی ہے
عمل سے ہے غافل، فقط قول پر ہے
مسلماں کا دعویٰ، مگر بے نوا ہے
"ندیم" اٹھ کہ تعمیرِ نو کا زمانہ
یہی وقت تو ہے، یہی وہ گھڑی ہے

0
5