وفا کی راہ میں چلنا محال ہو گیا اب
ہر ایک چہرہ یہاں پر وبال ہو گیا اب
ہمیں خبر نہ ہوئی اور دل یہ ٹوٹ گیا
عجب سفر تھا کہ جینا محال ہو گیا اب
وہ جن سے پیار تھا، اب اجنبی سے لگتے ہیں
کہ دوستی کا نیا کوئی سال ہو گیا اب
جو زندگی نے دیے زخم، سب قبول کیے
مگر یہ درد تو جینا محال ہو گیا اب
نہ کوئی منزلِ مقصود، نہ کوئی ساحل ہے
ہر ایک شخص یہاں بے حال ہو گیا اب
غمِ حیات سے شکوہ نہیں ہمیں کوئی
کہ اب تو رونا بھی اپنا کمال ہو گیا اب
ندیمؔ اب کوئی امیدِ وصل کیا رکھنا
یہاں تو ہجر ہی اپنا کمال ہو گیا اب

0
1