| پھر وہی پیغامِ نو، عزمِ جواں بھی چاہیے، |
| خوابِ مغرب سے نکل، اپنا جہاں بھی چاہیے! |
| آج پھر اقبال کی فکرِ رسا نے یہ کہا، |
| دل میں جو پنہاں ہے، اس کا ترجماں بھی چاہیے! |
| سر جھکانے سے نہ ہوگا کام، اے بندۂ خدا، |
| اِس خودی میں ذوقِ تسلیم و اماں بھی چاہیے! |
| وہ نگاہِ فقر دے جو بزمِ ہستی کو بدل، |
| عارفانہ روح کو سوزِ نہاں بھی چاہیے! |
| نغمہ زن ہو جا فلک پر، اے پرندۓ بندگی، |
| اِس خموشی کو لبِ شیریں بیاں بھی چاہیے! |
| نکتہ چینی ہو چکی، اب وقت ہے تعمیر کا، |
| تیرے ہاتھوں سے نفاذِ حکمِ جاں بھی چاہیے! |
| ہے یہی اقبال کا مسلک، یہی درسِ خودی، |
| جذبۂ عشق و عمل کا ترجماں بھی چاہیے! |
| ہے "ندیم"ؔ اب فکرِ اقبال کے فیض کا ذکر، |
| اہلِ دانش کو یہ حرفِ رازداں بھی چاہیے! |
معلومات