اٹھو اب کہ شب کا، سماں ختم ہوگا
اندھیرا مٹے گا، سویرا نیا ہے
جدھر بھی نظر کی، ادھر غم ہی پایا
یہ کیسی ہے دنیا، یہ کیا ماجرا ہے
نہیں کوئی اپنا، نہیں کوئی پرساں
ہر اک دل یہاں پر، عجب مبتلا ہے
جوانی کے دن تھے، عجب مستیاں تھیں
وہ گزری رتیں اب، فقط اک قضا ہے
وفا کا جو دعویٰ، کیا تھا کبھی ہم
وہ دعویٰ غلط تھا، فریبِ ہوس ہے
جو دل کو لگی تھی، وہ چوٹ اب بھی گہری
اسی درد کی اب، ہمیں انتہا ہے
چمن تھا جو اپنا، وہ اجڑا ہوا اب
خزاں نے ہی شاید، ستم یہ کیا ہے
"ندیم" اب جو دیکھا، تو دنیا ہے فانی
یہاں جو بھی آیا، وہ خود اک فنا ہے

0
3