یہ جو دیوار سی حائل ہے گرا دی جائے
آؤ ہمت کریں اور بات بڑھا دی جائے
زندگی کیا ہے اگر صرف گزر ہی جائے
کوئی تو شکل اسے تازہ نما دی جائے
اب یہ دنیا ہمیں تسلیم نہیں کرتی تو
کیوں نہ اس شہر کو اک اور سزا دی جائے
دل یہ کہتا ہے سبھی درد چھپا لوں لیکن
اک تمنا ہے کوئی مجھ کو دوا دی جائے
رہبری کا تو کہیں ذکر نہیں ہے اپنا
پھر بھی کیوں بزم میں یہ شمع جلا دی جائے
یہ جو امید ہے خاموش سلگتی کب تک
اس کو بیدار کیا جائے، صدا دی جائے
میرا فن، میرا ہنر، سب ہیں ادھورے جب تک
تیری تصویر نہ اس دل سے مٹا دی جائے
شعر کہنا تو ہنر تھا ہی مگر اب مشکل
درد سے خود کو ندیمؔ اور جلا دی جائے

0
3