سنا ہے بہت دل کشا ہے وہ یار
مِلے گا کبھی تو خدا ہے وہ یار
ہوا دل فقیر اُس کی چاہت میں اب
کہ ہر دم مرا مُدّعا ہے وہ یار
جدھر بھی نظر کر اُٹھاؤں میں اب"
ہر اِک سمت جلوہ نما ہے وہ یار
ملا ہے جو مجھ کو سحر کی نوید"
مری شب کا نور و ضیا ہے وہ یار
کوئی اور اِس دل میں آ کر بسے
مجھے اِس کی اب کیا بَلا ہے وہ یار
مرے دل کا ہر زخم بھر جائے گا
جو اک بار آئے دوا ہے وہ یار
مگر یہ ندیم اب بَھلے گا نہ دل
رہا اُس کے غم میں سدا ہے وہ یار

0
5