کوئی بھی خواب کا اب دل میں گھر نہیں ہوتا
کسی بھی درد کا اب کوئی اثر نہیں ہوتا
عجب یہ گردشِ دوراں ہے، کیا کہیں اس کو
کوئی بھی حال یہاں معتبر نہیں ہوتا
خزاں نصیب ہوئے گل، چمن اجڑ بھی گئے
مگر بہار کا اب کچھ سفر نہیں ہوتا
مرے جنوں کا ٹھکانہ نہیں کوئی جگ میں
کہ دل گرفتہ کبھی بے خبر نہیں ہوتا
سفر طویل ہوا، ہم کدھر نکل آئے؟
کوئی مسافر اب یوں دربدر نہیں ہوتا
"ندیم"ؔ اب کوئی شکوہ نہیں زمانے سے
کہ جس کا دل ہو سلامت، وہ ڈر نہیں ہوتا

0
2