عجب ہی بات ہے، کیا دل لگی سی چل رہی ہے
کہ ہر محفل میں جیسے اک کمی سی چل رہی ہے
کبھی وہ چاند تھا، میری نگاہوں کا ستارہ
مگر اب آسماں پر تیرگی سی چل رہی ہے
کوئی دیکھے تو دل کے زخم ہیں تازہ ابھی تک
حیاتِ درد کی یوں زندگی سی چل رہی ہے
زمانہ چھوڑ آیا ہوں میں اپنے گاؤں کی صورت
شہر میں آج کل تو بے بسی سی چل رہی ہے
ہنر اپنا چھپایا ہے سبھی سے ڈر کے مارے
یہاں ہر سو عجب سی دشمنی سی چل رہی ہے
ملن کی آس لے کر عمر ساری کٹ گئی ہے
مرے پہلو میں اب تو خامشی سی چل رہی ہے
سفر تنہا "ندیم" اب کس طرف کو جا رہا ہے؟
کہ منزل دور ہے اور بے خودی سی چل رہی ہے

0
2