| بہت سے زخم دلوں کے ابھی بھرے ہی نہیں |
| ہزار کوششیں کیں، درد کم ہوا ہی نہیں |
| عجب سا رنگ تھا اس شامِ غم کی محفل کا |
| کوئی بھی شخص وہاں کھل کے مسکرا ہی نہیں |
| یہ کیسی راہ چنی زندگی میں ہم نے، کہ بس |
| کوئی بھی سنگِ نشاں راہ میں ملا ہی نہیں |
| جو لوگ چھوڑ گئے ہیں ہمیں بھنور میں یہاں |
| پھر ان کا نام لبوں پر کبھی رہا ہی نہیں |
| خزاں نصیب رہی زندگی کی ہر ڈالی |
| کوئی بھی پھول محبت کا پھر کھلا ہی نہیں |
| کبھی تو آئے گا وہ، آس دل میں باقی ہے |
| وگرنہ جینے کا کوئی سبب بچا ہی نہیں |
| وفا کی بات، محبت کی چاہ، سب جھوٹا |
| یہاں پہ پیار کا چرچا کبھی ہوا ہی نہیں |
| "ندیم" ہم نے وفا کی قسم تو کھائی تھی |
| مگر وہ عہد محبت نبھا سکا ہی نہیں |
معلومات