| عشق میں ہم نے یہ دنیا کو بھلا رکھا ہے |
| ایک محشر دلِ ویراں میں بپا رکھا ہے |
| تجھ سے بچھڑے تو لگا جیسے قیامت آئی |
| دردِ ہجراں نے ہمیں خوب رلا رکھا ہے |
| چاند تاروں سے کہا کرتے ہیں تیری باتیں |
| تیرے قصّے کو زمانے سے چھپا رکھا ہے |
| زندگی نام ہے اب ہجر کی تنہائی کا |
| ایک دیپک غمِ جاناں کا جلا رکھا ہے |
| کون پوچھے گا بھلا اب دلِ ناکام کو یوں |
| ہر کسی نے سرِ محفل میں سجا رکھا ہے |
| جان باقی ہے مگر جسم کا سایہ ہی نہیں |
| عشق نے اپنے ہی ہاتھوں سے مٹا رکھا ہے |
| اے ندیم اب نہ کرو شکوہِ دوراں ہم سے |
| ہم نے ہر درد کو سینے میں بسا رکھا ہے |
معلومات