| وفا کی راہ میں ہر گام پر سوال ہوا |
| عجب سفر تھا کہ ہر موڑ پر ملال ہوا |
| ہماری آنکھ نے دیکھا تھا خواب جینے کا |
| مگر یہ دل تو غمِ زندگی سے چاک ہوا |
| وہ آئے بزم میں اور چھا گئے، مگر اے دوست |
| جو انتظار تھا صدیوں کا، وہ وبال ہوا |
| چراغِ دل کو جلایا تھا ہم نے چاہت میں |
| مگر یہ عشق ہی انجام کار و بال ہوا |
| نہ کوئی حرفِ شکایت، نہ کوئی آہ و فغاں |
| بس اک سکوت تھا، جو ہم سے ہم خیال ہوا |
| عجب جنون تھا، ہم جس کے پیچھے بھاگتے تھے |
| وہ منزلیں نہ ملیں، زندگی وبال ہوا |
| جہاں میں ہم نے بھی چاہا کہ سر اُٹھا کے چلیں |
| مگر یہ عشق تو اپنا ہی پائمال ہوا |
| یہی ہے زندگی، اے بے خبر ندیم اب کیا |
| جو کل تھا ہجر، وہی آج اپنا حال ہوا |
معلومات