یہ دل فریب نظارے نہ ہوں تو کیا کیجیے
جو دل کو چین نہ دے وہ بھلا کہاں کیجیے
تمہاری یاد میں گزرے ہیں روز و شب اپنے
کبھی تو آؤ کہ اس غم کا بھی مداوا کیجیے
جہاں میں اور بھی دکھ تھے، ہمیں خبر ہے مگر
ترے فراق میں جو کچھ ہوا، وہ کیا کیجیے
یہ زندگی تو امانت ہے، ایک دن جانی
سفر میں راہ کا حق ہے، سو اب ادا کیجیے
بہت دنوں سے یہ دل مضطرب ہے، اے ساقی
کوئی تو جام محبت کا اب عطا کیجیے
یہ رسم و راہ زمانہ عجیب ہے، سن لو
جو دل میں آئے وہی کام برملا کیجیے
کسی کے ہجر میں یوں زندگی گزاری ہے
کہ جیسے دشت میں کوئی سفر کیا کیجیے
غزل سرائی تو اپنا نصیب ہے، ندیم
وفا کی راہ میں خود کو بھی پارسا کیجیے

0
5