| کوئی میرے دل میں مکین اب کہاں ہے |
| کوئی درد کا اب نشاں بھی عیاں ہے |
| میں خود سے ہی پوچھا، کدھر ہے وہ اپنا |
| پتا کچھ لگا ہی، مگر وہ نہاں ہے |
| یہ کس نے کہا تھا، کہ ہنستے بہت تھے |
| یہاں کوئی دم ساز، کوئی گماں ہے؟ |
| فقط ایک وحشت، فقط ایک بستر |
| مگر میرے دل میں سکوں کا سماں ہے |
| نہ چہرہ کوئی تھا، نہ کوئی سخن ور |
| یہاں میرا اپنا ہی کوئی نشاں ہے |
| عجب بات تھی وہ، عجب ماجرا تھا |
| کوئی آشنا بھی، کوئی ہم زباں ہے |
| بس اب ختم کر یہ حکایت، یہ قصہ |
| کہ ہر بات اپنی بہت بے اماں ہے |
| "ندیم" آج بیٹھا یہ دل میں کہے ہے |
| کہ وہ کب ملا تھا، جو اب تک رواں ہے |
معلومات