مقامِ آگہی پر آ، نہیں یہ مرثیہ تجھ سے
کہیں گے لوگ دنیا میں، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
ہنر اپنا جگا دل میں، نہ مانگ بھیک منزل کی
سفر ہے تیری منزل کا، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
خودی کو کر بلند اتنا، کہ تیری ذات ظاہر ہو
جہانِ نو کا خالق ہے، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
ترا مسکن فلک ہوگا، ستاروں پر قدم رکھ دے
بنا ہے تو جہاں بھر کا، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
یہ دنیا عارضی ٹھہراؤ، اسے منزل نہ کر جاناں
قیام تیرا ابدی ہے، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
یہ مٹی اور یہ پانی، یہ سب فانی مناظر ہیں
وجود تیرا ازلی ہے، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
تو رازِ کن فکاں سن لے، تو حاصل لوح و قلم ہے
یہی پیغامِ یزداں ہے، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
"ندیم" اب چھوڑ دے غفلت، سمجھ اپنی حقیقت کو
جہاں ہے تیرے لیے بس، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

0
4