مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظّارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
یہ دل اگر اسیرِ وفا ہے تو اے صنم
ہر قید، ہر اسیر کا سودا بھی چھوڑ دے
گر تجھ کو اپنا آپ ہی پیارا نہیں رہا
جینے کی آرزو، یہ تقاضا بھی چھوڑ دے
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ کی فکر کیا
جو مل رہا ہے تجھ کو وہ دنیا بھی چھوڑ دے
اس عشقِ ناتمام میں حاصل نہ کچھ ہوا
اس رنج و غم کا اب تو یہ رونا بھی چھوڑ دے
اس دل کو جوڑنا ہے تو سارا ہی جوڑ دے
یا پھر یہ ٹوٹا پھوٹا ہی حصہ بھی چھوڑ دے
ہر حال میں 'ندیم' تو راضی بہ رضا رہ
شکوے شکایتوں کا یہ قصہ بھی چھوڑ دے
واعظ دلیل لائے جو مے کے جواز میں
"ندیم" کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے

0
3