| جنوں کی حکایت عجب داستاں ہے، |
| نہ دل کو سکوں اب، نہ کوئی اماں ہے۔ |
| وہی چشمِ نم، دل وہی بے قرار اب، |
| محبت کی صورت وہی درمیاں ہے۔ |
| تری چشمِ مستی، ترا ناز داغؔ سا، |
| مگر اس میں اقبالؔ کا بھی نشاں ہے۔ |
| خودی کا سبق دل نے سیکھا ہے اس سے، |
| کہ ہر سانس جیسے نئی اک فغاں ہے۔ |
| نہ دیکھا سکوں اب زمانے کے غم میں، |
| یہ دنیا فقط اک سرابِ رواں ہے۔ |
| بہت آرزو تھی کہ مل جائے منزل، |
| مگر اب سفر ہی مرا کارواں ہے۔ |
| عجب حال ہے دل کا اے جانِ مومنؔ، |
| کہ ہر سو فقط اب تری داستاں ہے۔ |
| ندیمؔ اب کوئی پروا نہیں غم کی، |
| فقط دل میں اک آرزو سی نہاں ہے۔ |
معلومات