وہ آئے ہیں گھر میں، بہار آ گئی ہے
ہر اک شے میں جیسے، نکھار آ گیا ہے
لبوں پر تبسم، نگاہوں میں الفت
دلِ بے قراراں، سنوار آ گیا ہے
گلوں میں جو خوشبو، چھپی تھی کہیں پر
وہ ان کے بدن سے، پکار آ گیا ہے
چمن میں جو بلبل، مچلتی تھی ہر دم
اسے آج جیسے، قرار آ گیا ہے
ستارے فلک کے، زمیں پر اتر آئے
یہ کیسا حسیں اب، دیار آ گیا ہے
مرے دل کے ہر ایک، گوشے میں اب تو
فقط ان کا ہی اب، خمار آ گیا ہے
نہ پوچھو "ندیم" اب، کہ کیسی ہے حالت
کہ پہلو میں دل کو، قرار آ گیا ہے
جہاں میں اب ان کے، سوا کچھ نہیں ہے
یہی بس مجھے اب، شعار آ گیا ہے

0
4