| جو دل پہ نقش ہوئے، وہ مٹیں تو کیسے مٹیں |
| یہ داغ آج بھی شامل مرے نگار میں ہے |
| عجیب رنگ ہے محفل کا، سب خموش مگر |
| ہر ایک بات جو پنہاں ہے، آشکار میں ہے |
| کبھی تو عکس پڑے گا تری نظر کا ادھر |
| یہ انتظار ازل سے اسی بہار میں ہے |
| یہی جنوں ہے، یہی اضطراب ہے دل کا |
| کہ اپنا نام بھی شامل تری قطار میں ہے |
| وفا کا ذکر نہ کر، یہ تو رسم دنیا تھی |
| جو دل پہ بوجھ رہا، وہ اسی خمار میں ہے |
| یہ اپنا ظرف ہے ورنہ گلہ تو بنتا تھا |
| کہ ہر ستم تری جانب سے اختیار میں ہے |
| سخنوری کا ہنر خوب جانتے ہیں ندیم |
| کہ یہ کمال بھی شامل مرے شعار میں ہے |
معلومات