| الٰہی مرے دل میں کیسی طلب ہے، |
| نہاں اس میں کیا کوئی رازِ عجب ہے؟ |
| یہی طرزِ غالبؔ، یہی شانِ میرؔ ہے، |
| یہی عشق والوں کا روز و شب ہے۔ |
| تری شوخیٔ چشم و اندازِ داغؔ ہے، |
| مری شاعری کا یہی اب سبب ہے۔ |
| اثر اس میں اقبالؔ کا اب ہوا ہے، |
| یہی زندگی کا نیا اک نسب ہے! |
| نہ پایا سکوں ہم نے دنیا کے غم میں، |
| فقط تیری قربت ہی اصلِ طلب ہے۔ |
| جنوں کا ٹھکانہ عجب اک عجب ہے، |
| نہ اس کو خبر اپنی اب، نہ ادب ہے۔ |
| ندیمؔ اب کوئی آرزو مت کرو تم، |
| کہ دنیا کی ہر شے فریبِ حلب ہے۔ |
معلومات