نہ دل میں تابِ سخن ہے، نہ جاں میں تاب نہیں
عجب فریبِ محبت، یہ خواب ہے کہ نہیں؟
وفا کی رسم چلی ہے نہ دہر میں شاید
کوئی بھی عہد کا پابند اب جناب نہیں
ازل سے پیاس ہماری بجھی نہیں ساقی
یہ زندگی تو فقط ایک سراب ہے کہ نہیں؟
وہ جن کو ناز تھا اپنی کلاہِ بخشی پر
خبر ملے گی انہیں، کچھ حجاب ہے کہ نہیں؟
جہاں میں رہ کے بھی دنیا سے بے خبر رہنا
یہ دل کا رنج ہے، کوئی عذاب ہے کہ نہیں؟
فلک کو دیکھ کے دل سے صدا یہ آتی ہے
یہ وسعتیں ہیں مگر کچھ حساب ہے کہ نہیں؟
"ندیم"ؔ بزمِ جہاں میں سکوت لازم ہے
زباں سے کہنے کا اب کچھ حساب نہیں

0
2