| ہمارے دل میں اک حسرت رہے گی |
| محبت کی ہمیں عادت رہے گی |
| جوانی تو چلی جائے گی لیکن |
| تری یادوں کی اک دولت رہے گی |
| نظر اب غیر کو ہرگز نہ دیکھے |
| وفا کی دل میں یہ شدت رہے گی |
| یہ چاہت کا سفر کب ختم ہوگا |
| سفر میں بس یہ اک وحشت رہے گی |
| بہت رویا ہوں تنہائی ندیم اب |
| یہی دل کی صدا، حسرت رہے گی |
| محبت میں کہاں دنیا کی پروا |
| فقط دل میں تری صورت رہے گی |
| یہی ہے زندگی اپنا غمِ دل |
| یہ اپنی اب نئی قسمت رہے گی |
| سنبھل جا اے دلِ ناداں ندیم اب |
| یہی دل کو مری فرصت رہے گی |
معلومات