دلِ عاشق بہت بسمل ہوا تھا
عجب اس ہجر میں حاصل ہوا تھا
بہت دل کو رہا تیرا تصور
کہ تو ہی میرا آب و گل ہوا تھا
یہ دل تیری محبت میں سراسر
جنوں خیز اور بہت پاگل ہوا تھا
مرے اشکوں نے جب دی تھی گواہی
ہر اک منظر یہاں بوجھل ہوا تھا
وہاں تنہائی کا عالم عجب تھا
جو یارِ جانی و محمل ہوا تھا
نہ کوئی چارہ گر تھا پاس اپنے
نہ کوئی یار کا حاصل ہوا تھا
یہی تھا قصۂ دردِ محبت
کہ جس میں دل مرا شامل ہوا تھا
"ندیم" اب دل کی حالت کیا بتاؤں
یہ سب کچھ حادثاً مشکل ہوا تھا

0
6