| ہوائیں جب چلیں آہیں بھریں گی |
| یہ دل کی بستیاں کیسے بسیں گی |
| کوئی بھی خواب اب تکمیل کو کیا |
| یہی آنکھیں مری یونہی ترسیں گی |
| وفا کی راہ میں چلنا محال اب |
| کہ ہر جانب یہ رسمیں ہی گتیں گی |
| یہاں پہ پیار کی قدریں کہاں ہیں |
| جدھر دیکھو وہاں دیواریں اٹھیں گی |
| مرا کردار اب کوئی نہ سمجھے |
| کہ باتیں تو زمانے میں اڑیں گی |
| چلے جو قافلہ اپنی وفا کا |
| صدائیں رہگزاروں سے سنیں گی |
| نہ دے آواز تو مجھ کو، اے ظالم |
| کہ اب تو دل میں سسکی سی دبیں گی |
| "ندیم" اب لوٹ آ اس بزم سے تو |
| کہ اب یادیں ہی بس تیری بچیں گی |
معلومات