| یہ نور آج پھر ہر سو جہان میں پھیل گیا، |
| وہ جس کا فکر تھا مشعل، زمان میں پھیل گیا! |
| سنا رہا ہے زمانہ، یہ کس کا نغمۂ حق؟ |
| ہر ایک قلب کی گہرائیوں میں ریل گیا! |
| خودی کا درس، عمل کا پیام عام ہوا، |
| جو خواب ملت کا تھا، گلستان میں پھیل گیا! |
| وہ فلسفی، وہ ادیبِ جہاں شناس آیا، |
| جمودِ ذہن و دل کو اک اڑان میں پھیل گیا! |
| حکیمِ مشرق و مغرب کو یاد کرتے ہیں، |
| وہ جس کا فن تھا سراپا، بیان میں پھیل گیا! |
| نکالا دشتِ جنوں سے ہمیں توحید کا راز، |
| وہ عشقِ مصطفیٰؐ، رگِ جان میں پھیل گیا! |
| جواں کی ہمت و پرواز جس نے دی آخر، |
| وہ جذبِ تازہ ہر اک داستان میں پھیل گیا! |
| ہزار قافلے اُس کے کلام پر جاگے، |
| شعورِ زیست ہر اک کاروان میں پھیل گیا! |
| ندیم یہ بات سچ ہے، کہ فکرِ "اقبال" ہی سے، |
| جمالِ خوابِ وطن، ہر مکان میں پھیل گیا! |
معلومات