کعبے سے کچھ غرض ہے نہ بُت خانے سے کام
ہم تو بیٹھے ہیں لگائے درِ جاناں پہ شام
رندِ مشرب ہوں، نہیں شیخ کا قائل ہرگز
ساقیا! گردش میں لا اب تُو وہ بادہ، وہ جام
دل بھی اب وہ نہیں، وہ درد و الم بھی نہ رہا
کیا کریں ذکرِ فغاں، کیا لیں اب اس کا نام
یوں گراں گزری تری بزم میں خاموشی بھی
جیسے شمشیر کوئی ہو سرِ عاشق بے دام
پوچھتے کیا ہو ندامت کا سبب اے ناصح
ہو گئے ہم تو فقط باعثِ ہستی سے بدنام
حسرتِ دید میں، دیوانہ ہوئے پھرتے ہیں
چشمِ حیراں کو میسر نہیں اب وصل کا جام
واعظا! چھوڑ یہ جنت کی بشارت، کہ یہاں
ایک نظّارہ ہی کافی ہے، یہی اپنا مقام
ہو چکا ذکر ہمارا سرِ محفل، "ندیم"
اب تو رسوائی نے لے لی ہے دل و جاں کی لگام

0
7