| عشق میں تیری ندیمؔ اب، یہ دل اپنا گنوا بیٹھا، |
| نہ کوئی ہوش ہے باقی، نہ کوئی آسرا بیٹھا۔ |
| تیرے کوچے میں جو آیا، تو یہ دنیا بھلا ڈالی، |
| تیرے قدموں میں ہی آ کر، دلِ مضطر سجا بیٹھا۔ |
| نہ مِلی چین کی صورت، نہ کوئی خوابِ راحت اب، |
| تری الفت کا یہ سودا، مرے دل کو دبا بیٹھا۔ |
| کوئی پروا نہیں مجھ کو، ملامت کی زمانے کی، |
| میں تو نظروں سے تیری، سبھی دنیا گرا بیٹھا۔ |
| بڑی مشکل سے یہ دل اب، تری جانب مائل تھا، |
| کہ تیرے ہجر کا غم پھر، نئی دنیا بسا بیٹھا۔ |
| یہی انداز ہے غالبؔ کا، یہی طرزِ میرؔ بھی ہے، |
| جسے دیکھو وہ محبت، میں اپنا سر جھکا بیٹھا۔ |
| تری چشمِ سیہ مستی، تری شوخی، ترا جادو، |
| کلامِ داغؔ میں اب یہ، نیا رنگت جما بیٹھا۔ |
| تری فرقت میں ندیمؔ اب، یہ حالت ہو گئی میری، |
| کہ جیسے کوئی مسافر، سرِ منزل تھکا بیٹھا۔ |
معلومات