جہاں سے کوئی تعلق رہا نہیں اب تو
یہ دل بھی اپنا دلکش رہا نہیں اب تو
وہ جن دنوں میں تمنا تھی وصل کی ہم کو
وہ اضطراب کا عالم رہا نہیں اب تو
عجیب خواب تھا دیکھا، مگر وہ پورا ہو
کوئی بھی خواب مکمل رہا نہیں اب تو
میں اپنی ذات کے صحرا میں کھو گیا ہوں اب
کسی کا کوئی بھی جھگڑا رہا نہیں اب تو
ہزار بار کہا دل نے، چھوڑ دے اس کو
مگر یہ ہاتھ سے میرے گیا نہیں اب تو
یہ آنسوؤں کی حقیقت بتا رہا ہوں میں
جو آنکھ سے گرا، وہ موتی رہا نہیں اب تو
"ندیم" ہم نے تو دنیا سے دل اٹھا لیا ہے
کسی سے کوئی بھی رشتہ رہا نہیں اب تو

0
1