"یہ دل تو پیار میں رونا سکھا سکا کوئی بھی"
غمِ حیات کو ہنس کر بھلا سکا کوئی بھی
ہزاروں لوگ ملے زندگی کی راہوں میں
مگر وہ درد کا رشتہ بنا سکا کوئی بھی
یہ شاعری کا ہنر بھی عجب ہنر ٹھہرا
جو دل میں آگ لگی تھی، بجھا سکا کوئی بھی
میں ایک خواب تھا، بکھرا ہوا سراب تھا بس
مری حقیقتِ جاں کو بتا سکا کوئی بھی
یہ زندگی کا سفر ہے، یہاں ہر اک تنہا
کسی کو ساتھ سفر میں چلا سکا کوئی بھی
وہ میری آنکھ کے آنسو نہیں تھے، موتی تھے
جو میری پلکوں سے چُن کر اٹھا سکا کوئی بھی
"ندیم" دل میں محبت تو تھی مگر ظاہر
زباں سے حالِ تمنا سنا سکا کوئی بھی

0
1