| نظروں کا تِیر آیا، دل کو شکار کر کے |
| جینا محال کر ڈالا، اپنا خمار کر کے |
| اِک رنگ ہے نیا سا، اِن بادلوں سی آنکھوں |
| چہرے پہ کچھ لکھا ہے، بے اختیار کر کے |
| پَلکیں گِریں جب اُن کی، اِک حشر سا بپا تھا |
| دُنیا بدل گئی ہے، اپنا سنگھار کر کے |
| گِرتے نہیں وہ آنسو، موتی ہیں اب یہ سارے |
| رکھتے ہیں دل میں ہم بھی، دل کو فگار کر کے |
| اِک روشنی سی پھیلی، اِس تِیرہ و تار دل میں |
| آئے وہ میری جاں میں، اپنا دیار کر کے |
| پھر آج دیکھ لی ہیں، وہ جھیل سی حسیں آنکھیں |
| بیٹھے ہیں اب کنارے، خود کو نثار کر کے |
| "ندیم"ؔ اب تو دل کا، کچھ حال ہو چکا ہے |
| اُجڑا چمن سجا ہے، اِک اختیار کر کے |
معلومات