| یہ دل جو تھا کبھی اپنا، وہ اب بیگانہ لگتا ہے |
| ؎ کوئی اپنا نہیں اپنا، ہر اِک انجانا لگتا ہے |
| ؎ محبت میں ہوئے رسوا، مگر شکوہ نہیں کوئی |
| ؎ یہ سودا دل کا اے ساقی، بہت ارزانہ لگتا ہے |
| ؎ ازل سے ہے یہی دستور، اس دنیا کی محفل کا |
| ؎ جو گل کھلتا ہے آخر کار، وہ ویرانہ لگتا ہے |
| ؎ تیری نظروں کی مستی نے، ہمیں یوں کر دیا مدہوش |
| ؎ کہ اب ہر مے کدہ مجھ کو، ترا بت خانہ لگتا ہے |
| ؎ نہیں پرواہ اب دنیا کی، نہ عقبیٰ کی کوئی خواہش |
| ؎ تری الفت میں اے "ندیم"، یہ دل دیوانہ لگتا ہے |
معلومات