| یہ آنکھیں نہیں مے کدہ سے ہوئے |
| جہاں دل کے غم سب رہا سے ہوئے |
| انہیں دیکھ کر دل میں الفت بڑھی |
| محبت کے چرچے بپا سے ہوئے |
| عجب رنگ آنکھوں کا دیکھا ہے جب |
| گلستاں خفا آج کیا سے ہوئے |
| کوئی اور صورت نہیں اب یہاں |
| کہ دل قید ان میں بپا سے ہوئے |
| نہ دیکھو "ندیم" ان کو تم اس طرح |
| یہ دل کے لیے سب سزا سے ہوئے |
| کبھی ان سے نظریں جو چار اب ہوئیں |
| تو اپنے ہی دل سے جدا سے ہوئے |
| یہ آنسو جو ان سے رواں ہو گئے |
| ستارے زمیں پر بکھر سے ہوئے |
| دیارِ وفا میں بسے جب "ندیم" |
| یہ منظر نگاہوں میں جا سے ہوئے |
معلومات