| بہار آئی مگر اب پھول کب کِھل کر گئے ہیں |
| پرانے رنگ ہی پھر آج کیا بدل کر گئے ہیں |
| کسی سے بھی نہیں کچھ شکوۂ دورِ حیات اب |
| وہ جب سے یار تنہا راہ میں مِل کر گئے ہیں |
| ہماری بات ہی کیا، داستاں ہے ہر اُس عاشق کی |
| جو اپنی جان کی پروا کیے بِن دِل کر گئے ہیں |
| نگاہوں میں وہی ہیں، شہر کی سب رونقیں باقی |
| وہ شمعیں جو جلیں تھیں آج بھی محفِل کر گئے ہیں |
| یقیں تھا تم کو پانے کا، چلے تھے شوق سے ہم تو |
| مگر کچھ دور جا کر ہم تو بے منزل کر گئے ہیں |
| سمجھنا تھا جسے ہر بات کو بے ساختہ، اپنا |
| وہی اب زندگی اپنی بہت مشکل کر گئے ہیں |
| سفر میں تھے مگر طوفاں میں ایسے ڈوب بیٹھے ہیں |
| کہ ہر اک آس کو ساحل سے بھی اوجھل کر گئے ہیں |
| ندیم! اب کس طرح اُن کو بھلائیں اپنے جذبوں سے |
| جو زخمِ تازہ ہر اک یاد کا بیدل کر گئے ہیں |
معلومات