یہاں ہر دل میں پنہاں ہے کوئی انمول سی دولت
یہی سرمایۂ ہستی، یہی معراجِ آدمیت
مقامِ آگہی بخشا ہے تو نے خاک کے پیکر کو
یہ تیری شانِ یکتائی، یہ تیری مصلحت، حکمت
نہیں ممکن کہ خالی ہاتھ لوٹ آئے کوئی سائل
تری درگاہ میں موجود ہے ہر درد کی راحت
وہ منزل ہی نہیں جس کا نشاں ہم پا نہیں سکتے
یقیں کامل اگر ہو، طے ہو ہر مشکل مسافت
جوانی کی متاعِ خاص ہے یہ جذبہ و ہمت
اسی سے رقص میں ہیں آسماں، ارض و سماوات
فقط ظاہر پہ مت جا، باطنِ انساں کو کر محسوس
یہاں پوشیدہ ہیں اسرارِ کون و مکاں و آیات
ندیمؔ اپنی خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر لمحہ
تجھے حاصل رہے عرفانِ ذات اور سوزِ کیفیت
یہی ہے زندگی کا اصل مقصد، اے ندیمِؔ دل
عبادت گرچہ مشکل ہے، مگر یہ عینِ حقانیت

0
4